دی اکانومسٹ میں عمران خان کا کالم۔۔۔ اُردو میں
عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کا الیکشن ایک مذاق ثابت ہو سکتا ہے۔
آج پاکستان میں فیڈرل اور صوبائی سطح دونوں پر نگران حکومت کا راج ہے۔ یہ حکومتیں آئینی طور پر غیر قانونی ہیں کیونکہ پارلیمانی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن میں الیکشن نہیں ہوئے۔
عوام کو یہ سنے کومل رہا ہے کہ الیکشن فروری 8 کو ہوگا۔ لیکن جو پنجاب اور خیبر پختونخوا، دوصو بوں میں گزشتہ ایک سال سے ہورہا ہے، باوجود اسکے کہ مارچ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ان دونوں اسمبلیوں کے الیکشن تین ماہ کی آئینی مدت میں ہونے چاہیے۔ ایسے میں عوام حق بجانب ہے کہ وہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق شکوک کا شکار ہوں۔
اپنی عجیب و غریب کاروائیوں کے باعث الیکشن کمیشن کا کردار داغدار ہے۔ الیکشن کمیشن نے محض اعلیٰ عدلیہ کے حکم کی خلاف ورزی کا ہی ارتکاب نہیں کیا بلکہ میری جماعت پاکستان تحریک انصاف کے صف اول کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مستر د کیے ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات میں رکاوٹ ڈالنے سمیت میرے اور دوسرے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمات بنائے ہیں صرف اس لیے کہ ہم نے الیکشن کمیشن ( کی جانبدار کاروائیوں ) پر تنقید کی ہے۔
بدقسمتی سے ، اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ مجھے اقتدار میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لیے مجھے سیاسی منظرنامے سے ہٹانے کے تمام ذرائع استعمال کیے گئے۔ مجھ پر دو قاتلانہ حملے ہوئے۔ میری پارٹی کے رہنماؤں، کارکنان، سوشل میڈیا ورکرز ، وہ صحافی جو تحریک انصاف کی حمایت کر رہے تھے ، انہیں اغوا ، قید اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر پی ٹی آئی چھوڑنے کے لئے شدید دباؤ ڈالا گیا۔
سب سے بدتر یہ ہے کہ موجودہ حکومت خواتین کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش میں تحریک انصاف کی خواتین رہنماؤں اور کارکنان کو خوفزدہ کے لیے ہر حد پار کر رہی ہے۔
مجھے تقریباً 200 مقدمات کا سامنا ہے اور اوپن ٹرائل جیسے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہوں۔ 9 مئی 2023 کو ایک فالس فلیگ آپریشن میں فوجی تنصیبات پر آتشزدگی کا جھوٹا الزام تحریک انصاف پر لگایا گیا جس کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر کئی ہزار گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔اس سب کی رفتار نے ظاہر کیا کہ یہ سب پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت کیا گیا۔
ہمارے بہت سے رہنماؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا ان کے اہل خانہ سے پریس کانفرنسیں کروائی گئیں اور انجینیر کیے گئے ٹیلی ویژن انٹرویوز چلائے گئے جس میں انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ کچھ کو دوسری نئی بننے والی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ میرے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔
ان سب کے باوجود، تحریک انصاف آج بھی مقبول ہے ، دسمبر میں منعقد ہونے والے Pattan-Coalition پول میں 66 فیصد حمایت کے ساتھ ہم سب سے آگے ہیں۔ میری ذاتی مقبولیت اس سے بھی زیادہ ہے۔
الیکشن کمیشن ،تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کے حق سے دستبردار کرنے کے لیے ہر طرح کی غیر قانونی چالیں چل رہا ہے۔ عدلیہ روز بروز اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔ دریں اثنا، بدعنوانی کے جرم میں سزا پانے والا سابق وزیر اعظم نواز شریف برطانیہ سے واپس آیا ہے، جہاں وہ ایک مفرور اشتہاری کے طور پر رہ رہا تھا۔ نومبر میں پاکستان کی ایک عدالت نے اسکی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔
میرا ماننا ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ اسکی بریت اور آئندہ الیکشن میں اسکی حمایت کریں گے۔ لیکن عوام اب تک تحریک انصاف کیساتھ ہیں اور سیلیکٹڈ کو مسلسل مستر د کر رہے ہیں۔ ان حالات میں 8 فروری کو کیسے آزادانہ انتخابات ہو سکتے ہیں؟ جبکہ تحریک انصاف کے علاوہ تمام جماعتوں کو آزادانہ طور پر مہم چلانے کی اجازت ہے۔
میں قید تنہائی میں ہوں ، غداری سمیت مضحکہ خیز الزامات میں قید ہوں۔ ہماری جماعت کے چند ر ہنما جو آزاد ہیں اور چھپے ہوئے نہیں ہیں انہیں مقامی ورکر کنونشن منعقد کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جہاں تحریک انصاف کے کارکن اکٹھے ہونے کا انتظام کرتے ہیں وہاں انہیں پولیس کی وحشیانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس منظر نامے میں، اگر انتخابات ہوئے بھی تو وہ ایک تباہی اور ڈھونگ ہوں گے، کیونکہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ الیکشن کا ایسامذاق مزید سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ اس کے نتیجے میں، پہلے سے ہی غیر مستحکم معیشت مزید خراب ہوگی ۔۔۔۔
پاکستان کے لیے آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہیں۔ پاکستان کے لیے اپنے آپ کو در پیش بحرانوں سے الگ کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ، ہم مخالف سمت گامزن ہیں۔
انتخابات ہوں یا نہیں، اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے مضحکہ خیز ووٹ کے بعد سے جس انداز میں مجھے اور میری پارٹی کونشانہ بنایا گیا ہے اس نے ایک بات واضح کر دی ہے : اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج سیکورٹی ایجنسیاں اور سول بیورو کریسی پی ٹی آئی کے لیے لیول تو دور کھیل کا کوئی میدان فراہم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔
بہر حال یہی وہ اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے امریکہ کے دباؤ میں آکر ہماری حکومت کی برطرفی کو انجینئر کیا، جسکی وجہ ایک آزاد خارجہ پالیسی کے لیے میرے مسلسل اصرار اور امریکا کی مسلح افواج کے لیے اڈے فراہم کرنے سے انکار تھا۔ میرا واضح موقف تھا کہ ہم سب کے دوست ہوں گے لیکن جنگوں کے لئے کسی کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔ میرا یہ فیصلہ غیر منطقی نہیں بلکہ اسکی وجہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ہونے والے بھاری نقصانات ہیں۔ کم از کم 80,000 پاکستانی جانیں اس جنگ کا ایندھن بنیں۔ مارچ 2022 میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد سفیر نے میری حکومت کو ایک سائفر پیغام بھیجا تھا۔۔۔
سائٹر پیغام میں کہا گیا ، عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا ئیں ورنہ اسکے نتائج ہونگے !
چند ہفتوں کے اندر اندر ہماری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، یہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے کیا تھا، جو ہمارے اتحادیوں اور پارلیمانی بیک پنچر زکو کئی مہینے سے ہمارے خلاف کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔ حکومت کی اس تبدیلی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ، اور اگلے چند مہینوں میں پی ٹی آئی نے 37 میں سے 28 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ملک بھر میں زبر دست ریلیاں نکالیں ، جو ایک واضح پیغام تھا کہ عوام کسی جانب کھڑے ہیں۔ ان ریلیوں میں خواتین کی غیر معمولی شرکت رہی۔ اس سب نے ان ارباب اختیار کو بے چین کر دیا جنہوں نے ہماری حکومت کو ہٹانے کا کام شروع کیا تھا۔
عمران خان سابق وزیر اعظم پاکستان
مکمل کالم: دی اکنامسٹ پر
تمام تازہ ترین نیوز کے لیے ہمارے گوگل نیوز چینل کو آن لائن یا ایپ کے ذریعے فالو کریں۔